Best Nazam Collection of Ahmad Faraz in Urdu

Best Nazam Collection of Ahmad Faraz

→ نظم نمبر1

 مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے 

شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو 

ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید 

اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو 

میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمان وفا 

کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں 

شاید اب لوٹ کے آئے نہ تری محفل میں 

اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں 

میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں 

وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ 

چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ 

مستقل بعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ 

پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے 

مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں 

زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے 

دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں 

یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر 

تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے 

تو کہ معصوم بھی ہے زود فراموش بھی ہے 

اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے 

اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا 

ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہ جاؤں 

جس پہ پہلے بھی کئی عہد وفا ٹوٹے ہیں 

اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں 

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ نظم نمبر 2

گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں 

اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں 

فقط تمہیں کو نہیں رنج چاک دامانی 

کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں 

تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں 

مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں 

تمہارے آئنہ خانے بھی زنگ آلودہ 

مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں 

نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں 

نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے 

بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو 

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے 

نہ سرو میں وہ غرور کشیدہ قامتی ہے 

نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی 

نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب 

نہ شاخ امن لئے فاختہ کوئی آئی 

تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری 

ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں 

تمہیں بھی زعم مہا بھارتا لڑی تم نے 

ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں 

ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے 

ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے 

الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار 

عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے 

تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب 

تمہارے پاؤں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے 

نہ جیت جیت تمہاری نہ ہار ہار مری 

نہ کوئی ساتھ تمہارے نہ کوئی ساتھ مرے 

ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق 

دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں 

اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے 

جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں 

چراغ جن سے محبت کی روشنی پھیلے 

چراغ جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں 

چراغ جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے 

چراغ جن سے دیئے بے شمار روشن ہوں 

تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے 

نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لئے 

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر 

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ نظم نمبر 3

یہ تری آنکھوں کی بے زاری یہ لہجے کی تھکن 

کتنے اندیشوں کی حامل ہیں یہ دل کی دھڑکنیں 

پیشتر اس کے کہ ہم پھر سے مخالف سمت کو 

بے خدا حافظ کہے چل دیں جھکا کر گردنیں 

آؤ اس دکھ کو پکاریں جس کی شدت نے ہمیں 

اس قدر اک دوسرے کے غم سے وابستہ کیا 

وہ جو تنہائی کا دکھ تھا تلخ محرومی کا دکھ 

جس نے ہم کو درد کے رشتے میں پیوستہ کیا 

وہ جو اس غم سے زیادہ جاں گسل قاتل رہا 

وہ جو اک سیل بلا انگیز تھا اپنے لیے 

جس کے پل پل میں تھے صدیوں کے سمندر موجزن 

چیختی یادیں لیے اجڑے ہوئے سپنے لیے 

میں بھی ناکام وفا تھا تو بھی محروم مراد 

ہم یہ سمجھے تھے کہ درد مشترک راس آ گیا 

تیری کھوئی مسکراہٹ قہقہوں میں ڈھل گئی 

میرا گم گشتہ سکوں پھر سے مرے پاس آ گیا 

تپتی دوپہروں میں آسودہ ہوئے بازو مرے 

تیری زلفیں اس طرح بکھریں گھٹائیں ہو گئیں 

تیرا برفیلا بدن بے ساختہ لو دے اٹھا 

میری سانسیں شام کی بھیگی ہوائیں ہو گئیں 

زندگی کی ساعتیں روشن تھیں شمعوں کی طرح 

جس طرح سے شام گزرے جگنوؤں کے شہر میں 

جس طرح مہتاب کی وادی میں دو سائے رواں 

جس طرح گھنگھرو چھنک اٹھیں نشے کی لہر میں 

آؤ یہ سوچیں بھی قاتل ہیں تو بہتر ہے یہی 

پھر سے ہم اپنے پرانے زہر کو امرت کہیں 

تو اگر چاہے تو ہم اک دوسرے کو چھوڑ کر 

اپنے اپنے بے وفاؤں کے لیے روتے رہیں

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ نظم نمبر 4

ہم خوابوں کے بیوپاری تھے 

پر اس میں ہوا نقصان بڑا 

کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی 

کچھ اب کے غضب کا کال پڑا 

ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں 

اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا 

یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں 

وہ باج بیاج کی بات کرے 

ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں 

وہ ڈھور اناج کی بات کرے 

ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں 

وہ آج ہی آج کی بات کرے 

جب دھرتی صحرا صحرا تھی 

ہم دریا دریا روئے تھے 

جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں 

اور سر سنگیت میں سوئے تھے 

تب ہم نے جیون کھیتی میں 

کچھ خواب انوکھے بوئے تھے 

کچھ خواب سجل مسکانوں کے 

کچھ بول کبت دیوانوں کے 

کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے 

کچھ گیت شکستہ جانوں کے 

کچھ نیر وفا کی شمعوں کے 

کچھ پر پاگل پروانوں کے 

پر اپنی گھائل آنکھوں سے 

خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا 

ماٹی میں ماس کی کھاد بھری 

اور نس نس کو زخمایا تھا 

اور بھول گئے پچھلی رت میں 

کیا کھویا تھا کیا پایا تھا 

ہر بار گگن نے وہم دیا 

اب کے برکھا جب آئے گی 

ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی 

اور ہر کونپل پھل لائے گی 

سر پر چھایا چھتری ہوگی 

اور دھوپ گھٹا بن جائے گی 

جب فصل کٹی تو کیا دیکھا 

کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے 

کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر 

کچھ خاکستر سے کجرے تھے 

اور دور افق کے ساگر میں 

کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے 

اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری 

اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے 

سب سنگی ساتھی بھید بھرے 

کوئی ماسہ ہے کوئی تولا ہے 

اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ 

ہر اور ٹھگوں کا ٹولا ہے 

اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در 

اب پاس رہا ہے کیا بابا 

بس تن کی گٹھری باقی ہے 

جا یہ بھی تو لے جا بابا 

ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں 

تو اپنا قرض چکا بابا

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ نظم نمبر 5

کب سے سنسان خرابوں میں پڑا تھا یہ جہاں 

کب سے خوابیدہ تھے اس وادئ خارا کے صنم 

کس کو معلوم یہ صدیوں کے پراسرار بھرم 

کون جانے کہ یہ پتھر بھی کبھی تھے انساں 

صرف لب دوختہ پربت ہیں جہاں نوحہ کناں 

نہ در و بام نہ دیوار و دریچہ کوئی 

کوئی دہلیز شکستہ نہ حریم ویراں 

شہر کے شہر ہیں پاتال کے دامن میں نہاں 

کون پہچانتا ظلمت ہیں سیاہی کے نشاں 

جو نظر ڈھونڈنے اٹھی وہ نظر بھی کھوئی 

چشم مہتاب بھی شبنم کی جگہ خوں روئی 

علم نے آج کریدے ہیں وہ ظلمات کے ڈھیر 

وقت نے جس پہ بٹھائے تھے فنا کے پہرے 

جاگ اٹھے صور سرافیل سے گونگے بہرے 

تا ابد جن کے مقدر میں تھی دنیا اندھیر 

یہ مگر عظمت انساں ہے کہ تقدیر کے پھیر؟ 

یہ عمارات، یہ مینار، یہ گل زار، یہ کھیت 

تودۂ خاک سے ہستی نے لیا تازہ جنم 

جی اٹھے وادئ خاموش کے بے جان صنم 

پھر کوئی چیرے گا ذرے کا جگر قطرۂ یم 

دفن کر دے گا جو خالق کو بھی مخلوق سمیت 

اور یہ آبادیاں بن جائیں گی پھر ریت ہی ریت

💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙