Ahmad Faraz Best Ghazal Collection in Urdu

Ahmad Faraz Best Ghazal Collection in Urdu

→ غزل نمبر 1 

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں 
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے 
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی 
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف 
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے 
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں 
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں 
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی 
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے 
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں 
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی 
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں 
مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں 
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے 
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں 
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں 
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں 
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا 
سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت 
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں 
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں 
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں 
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے 
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں 
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی 
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں 
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں 
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 2 

پیام آئے ہیں اس یار بے وفا کے مجھے 
جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے 
جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں 
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے 
نشے سے کم تو نہیں یاد یار کا عالم 
کہ لے اڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے 
میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے 
اداس چھوڑ گئے آئینہ دکھا کے مجھے 
تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعت دار 
جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اٹھا کے مجھے 
کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر 
فرازؔ دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 3

 ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو 
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو 
مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں 
ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو 
میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی 
میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو 
ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے 
یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو 
فضا اداس ہے رت مضمحل ہے میں چپ ہوں 
جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو 
فرازؔ تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا 
زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں 
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں 

تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر 
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں 

تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا 
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں 

ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں 
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں 

ہم اگر منزلیں نہ بن پائے 
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں 

دیر سے سوچ میں ہیں پروانے 
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں 

عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا 
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں 

اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے 
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں 

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ 
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 4

روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں 
در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں 

عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے 
بعد میں سیکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں 

پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے 
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں 

بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے 
رو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں 

کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں 
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں 

داغ دامن کے ہوں دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ 
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 5 

اول اول کی دوستی ہے ابھی 
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی 

میں بھی شہر وفا میں نو وارد 
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی 

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس 
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی 

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ 
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی 

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں 
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی 

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا 
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی 

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا 
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی 

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں 
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی 

فصل گل میں بہار پہلا گلاب 
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی 

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر 
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 6 

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے 
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے 

پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا 
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے 

کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے 
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے 

اے یاد یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں 
اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے 

سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحان شہر 
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے 

اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کہ ہم 
اب کے گئے تو کوئے ستم گر کے ہو گئے 

روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فرازؔ تم 
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 7 

خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے 
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے 

وحشت کا سبب روزن زنداں تو نہیں ہے 
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے 

اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے 
اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے 

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے 
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے 

رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی 
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے 

کیا بیت گئی اب کے فرازؔ اہل چمن پر؟ 
یاران قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 8 

تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں 
میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں 

مجھ سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل 
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں 

تو آ چکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں 
بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں 

اے یار خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں 
کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں 

تو لوٹ کر بھی اہل تمنا کو خوش نہیں 
یاں لٹ کے بھی وفا کے انہی قافلوں میں ہوں 

بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو 
میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں 

مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر 
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں 

تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر 
اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں 

خود ہی مثال لالۂ صحرا لہو لہو 
اور خود فرازؔ اپنے تماشائیوں میں ہوں
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 9 

جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے 
کہ ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے 

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی 
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے 

اب اک ہجوم شکستہ دلاں ہے ساتھ اپنے 
جنہیں کوئی نہ ملا ہم سفر ہمارے ہوئے 

کسی نے غم تو کسی نے مزاج غم بخشا 
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے 

بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو 
اسی جنوں میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے 

وہ اعتماد کہاں سے فرازؔ لائیں گے 
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 10 

نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے 
مگر یہ بات بڑی دور جا نکلتی ہے 

ستم تو یہ ہے کہ عہد ستم کے جاتے ہی 
تمام خلق مری ہم نوا نکلتی ہے 

وصال و ہجر کی حسرت میں جوئے کم مایہ 
کبھی کبھی کسی صحرا میں جا نکلتی ہے 

میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی 
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے 

وہ زندگی ہو کہ دنیا فرازؔ کیا کیجے 
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 11

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو 
کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو 

وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر 
وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو 

چٹخ اٹھا ہو سلگتی چٹان کی صورت 
پکار اب تو مرے دیر آشنا مجھ کو 

تجھے تراش کے میں سخت منفعل ہوں کہ لوگ 
تجھے صنم تو سمجھنے لگے خدا مجھ کو 

یہ اور بات کہ اکثر دمک اٹھا چہرہ 
کبھی کبھی یہی شعلہ بجھا گیا مجھ کو 

یہ قربتیں ہی تو وجہ فراق ٹھہری ہیں 
بہت عزیز ہیں یاران بے وفا مجھ کو 

ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں 
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو 

اسے فرازؔ اگر دکھ نہ تھا بچھڑنے کا 
تو کیوں وہ دور تلک دیکھتا رہا مجھ کو
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 12

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے 
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے 

تو محبت سے کوئی چال تو چل 
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے 

دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے 
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے 

ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں 
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے 

کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فرازؔ 
سب میں اک شخص ہی ملا ہے مجھے
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا 
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا 

وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے 
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا 

وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے 
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا 

چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا 
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا 

یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں 
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا 

ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ 
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙

→ غزل نمبر 13

تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست 
تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست 

لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں 
یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست 

تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی 
میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست 

یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے 
کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست 

اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن 
وہ قیامت جو گزرنی تھی گزر بھی گئی دوست 

تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے 
ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست 

بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو 
تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست 

میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے 
آخری خط میں یہ لکھا تھا فقط آپ کی دوست
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙