Best Ghazals of Allama Iqbal in Urdu, Allama Iqbal Ghazal lyrics, Allama Iqbal ki Ghazal urdu mein
رات اور شاعر
{رات کہتی ہے}
کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاںخاموش صورت گل، مانند بو پریشاں
تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو
یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے
رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے
Allama Iqbal ghazal
خاموش ہو گیا ہے تار رباب ہستی
ہے میرے آئنے میں تصویر خواب ہستی
دریا کی تہ میں چشم گرادب سو گئی ہے
ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے
بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے
یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے
شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکوں سے
آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے؟
-شاعر کہتا ہے
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
Allama Iqbal ghazal poetry
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے، سناوں کس کو
تپش شوق کا نظارہ دکھاوں کس کو
برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی ہے جو آنکھ، کہاں سوتی ہے!
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری
آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری
عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کا
ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں
Allama Iqbal Ghazal Raat Aur Shayar
Allama Iqbal ghazal lyrics
Allama Muhammad Iqbal ghazal
بزم انجم
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کوطشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور
قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی
چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے
وہ دور رہنے والے ہنگامہء جہاں سے
کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں 'تارے'
محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی
عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی
اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!
تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری
چھیڑو سرود ایسا، جاگ اٹھیں سونے والے
رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمھاری
آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں
شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری
رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے
وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے
حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں
آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم
داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
سیر فلک
تھا تخیل جو ہم سفر میرا
آسماں پر ہوا گزر میرا
اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی
جاننے والا چرخ پر میرا
تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے
راز سر بستہ تھا سفر میرا
حلقہ صبح و شام سے نکلا
اس پرانے نظام سے نکلا
کیا سناوں تمھیں ارم کیا ہے
خاتم آرزوئے دیدہ و گوش
شاخ طوبی! پہ نغمہ ریز طیور
بے حجابانہ حور جلوہ فروش
ساقیان جمیل جام بدست
پینے والوں میں شور نوشانوش
دور جنت سے آنکھ نے دیکھا
ایک تاریک خانہ سرد و خموش
طالع قیس و گیسوئے لیلی
اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
خنک ایسا کہ جس سے شرما کر
کرہ زمہریر ہو روپوش
میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
حیرت انگیز تھا جواب سروش
یہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے، نور سے تہی آغوش
شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
تو بھی ہے شیوہ ارباب ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ترے ذکر حجاز
جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
تیرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز
ختم تقریر تری مدحت سرکار پہ ہے
فکر روشن ہے ترا موجد آئین نیاز
در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود
پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلف ایاز
اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز
نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن
اثر وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز
دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں
چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز
اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے
تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیراز
جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے، وہ ہیں تجھ میں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز
غم صیاد نہیں، اور پر و بال بھی ہیں
پھر سبب کیا ہے، نہیں تجھ کو دماغ پرواز
سب فلسفی ہیں خطہء مغرب کے رام ہند
یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا
آسماں پر ہوا گزر میرا
اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی
جاننے والا چرخ پر میرا
تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے
راز سر بستہ تھا سفر میرا
حلقہ صبح و شام سے نکلا
اس پرانے نظام سے نکلا
کیا سناوں تمھیں ارم کیا ہے
خاتم آرزوئے دیدہ و گوش
شاخ طوبی! پہ نغمہ ریز طیور
بے حجابانہ حور جلوہ فروش
ساقیان جمیل جام بدست
پینے والوں میں شور نوشانوش
دور جنت سے آنکھ نے دیکھا
ایک تاریک خانہ سرد و خموش
طالع قیس و گیسوئے لیلی
اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
خنک ایسا کہ جس سے شرما کر
کرہ زمہریر ہو روپوش
میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
حیرت انگیز تھا جواب سروش
یہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے، نور سے تہی آغوش
شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
نصیحت
میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہاعامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز
تو بھی ہے شیوہ ارباب ریا میں کامل
دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ترے ذکر حجاز
جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے
تیرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز
ختم تقریر تری مدحت سرکار پہ ہے
فکر روشن ہے ترا موجد آئین نیاز
در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود
پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلف ایاز
اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے
پردہ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز
نظر آجاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن
اثر وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز
دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں
چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز
اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے
تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیراز
جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے، وہ ہیں تجھ میں سبھی
تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز
غم صیاد نہیں، اور پر و بال بھی ہیں
پھر سبب کیا ہے، نہیں تجھ کو دماغ پرواز
رام
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہندسب فلسفی ہیں خطہء مغرب کے رام ہند
یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند
اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوش محبت میں فرد تھا
موٹر
کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی
موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش
ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز
مانند برق تیز، مثال ہوا خموش
میں نے کہا، نہیں ہے یہ موٹر پہ منحصر
ہے جادہء حیات میں ہر تیزپا خموش
ہے پا شکستہ شیوہء فریاد سے جرس
نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش
مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل
لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش
شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی
سرمایہ دار گرمی آواز خامشی!
موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش
ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز
مانند برق تیز، مثال ہوا خموش
میں نے کہا، نہیں ہے یہ موٹر پہ منحصر
ہے جادہء حیات میں ہر تیزپا خموش
ہے پا شکستہ شیوہء فریاد سے جرس
نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش
مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل
لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش
شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی
سرمایہ دار گرمی آواز خامشی!
انسان
منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے
رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے
اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرہ نہیں، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہےئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا
تمدن آفریں خلاق آئین جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں 'الفقر فخری' کا رہا شان امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
غرہء شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
غرہء شوال: شوال کے مہینے کا ہلال۔
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبح عیش کی تمید ہے
سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی، وفا آئیں ترا
ہے محبت خیز یہ پیراہن سیمیں ترا
اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے !
قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہر و درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ
دیکھ مسجد میں شکست رشتہ تسبیح شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
ہاں، تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو
اور جو بے آبرو تھے، ان کی خود داری بھی دیکھ
جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا
اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورش امروز میں محو سرود دوش رہ
محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے
رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے
اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرہ نہیں، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہےئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے
خطاب بہ جوانان اسلام
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نےوہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا
تمدن آفریں خلاق آئین جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں 'الفقر فخری' کا رہا شان امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
غرہء شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
غرہء شوال: شوال کے مہینے کا ہلال۔
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبح عیش کی تمید ہے
سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے
جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی، وفا آئیں ترا
ہے محبت خیز یہ پیراہن سیمیں ترا
اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے !
قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہر و درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ
دیکھ مسجد میں شکست رشتہ تسبیح شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
ہاں، تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو
اور جو بے آبرو تھے، ان کی خود داری بھی دیکھ
جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا
اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورش امروز میں محو سرود دوش رہ
شمع اور شاعر
{ شاعرکہتا ہے }
دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش
گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے
از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی
گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے
از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی
شمع
مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا
گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالہء صحرا ترا
سوچ تو دل میں، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!
اور ہے تیرا شعار، آئین ملت اور ہے
زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ، اے پروردہء آغوش موج
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
اب نوا پیرا ہے کیا، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا
تھا جنھیں ذوق تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوق بے پروا گیا، فکر فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے
خیر، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلی رہی، لیلی کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
احساس زياں: نقصان کا احساس۔
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں
دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں
وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلیاں آسودہء دامان خرمن ہوگئیں
دیدہء خونبار ہو منت کش گلزار کیوں
اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نقد خودداری بہائے بادہء اغیار تھی
پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نائو نوش
ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند
پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش
پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مےء مغرب نے کر ڈالے خموش
نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش
کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش
آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثل جو ہوا
اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر، بڑی دولت ہے یہ
زندگی کیسی جو دل بیگانہء پہلو ہوا
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
پردہ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی
جب یہ جمیعت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا
یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
تو اگر خود دار ہے، منت کش ساقی نہ ہو
عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
ہاں، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں
اہل گلشن کو شہید نغمہ مستانہ کر
اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر
کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا، سرود بربط عالم ہے تو
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہء طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
دیکھ آ کر کوچہء چاک گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلی بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
بے خبر! تو جوہر آئینہء ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے
سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا
جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے، پنہاں بھی ہے
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
دل کی کیفیت ہے پیدا پردہء تقریر میں
کسوت مینا میں مے مستور بھی، عریاں بھی ہے
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوہ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالہء صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
سینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
نغمہ امید تیری بربط دل میں نہیں
ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں
گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا
اور دل ہنگامہء حاضر سے بے پروا ترا
قصہ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں
اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں
اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ
ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دوشینہ ہوسکتی نہیں ہم نشیں
مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے
حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا
اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا
دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا
میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے
قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے
آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتح کامل کی خبر دتیا ہے جوش کارزار
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں
اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا
گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالہء صحرا ترا
سوچ تو دل میں، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!
اور ہے تیرا شعار، آئین ملت اور ہے
زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ، اے پروردہء آغوش موج
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
اب نوا پیرا ہے کیا، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا
تھا جنھیں ذوق تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوق بے پروا گیا، فکر فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے
خیر، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلی رہی، لیلی کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
احساس زياں: نقصان کا احساس۔
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں
دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں
وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلیاں آسودہء دامان خرمن ہوگئیں
دیدہء خونبار ہو منت کش گلزار کیوں
اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نقد خودداری بہائے بادہء اغیار تھی
پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نائو نوش
ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند
پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش
پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مےء مغرب نے کر ڈالے خموش
نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش
کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش
آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثل جو ہوا
اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر، بڑی دولت ہے یہ
زندگی کیسی جو دل بیگانہء پہلو ہوا
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
پردہ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی
جب یہ جمیعت گئی، دنیا میں رسوا تو ہوا
یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
تو اگر خود دار ہے، منت کش ساقی نہ ہو
عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
ہاں، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں
اہل گلشن کو شہید نغمہ مستانہ کر
اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر
کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا، سرود بربط عالم ہے تو
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہء طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
دیکھ آ کر کوچہء چاک گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلی بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
بے خبر! تو جوہر آئینہء ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے
سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا
جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے، پنہاں بھی ہے
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
دل کی کیفیت ہے پیدا پردہء تقریر میں
کسوت مینا میں مے مستور بھی، عریاں بھی ہے
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوہ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالہء صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
مسلم
ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہےسینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
نغمہ امید تیری بربط دل میں نہیں
ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں
گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا
اور دل ہنگامہء حاضر سے بے پروا ترا
قصہ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں
اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں
اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ
ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دوشینہ ہوسکتی نہیں ہم نشیں
مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے
حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا
اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا
دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا
میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے
قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے
آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتح کامل کی خبر دتیا ہے جوش کارزار
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں
اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں